منیراحمد ٹمکور:9880287960
اس میں اب کوئی شک نہیں کہ ملک کی سیاست میں ایک نئی آواز بلند ہورہی ہے مسلمانوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی صدا، ان کے مسائل کو انتہائی نپے تلے انداز سے، انصاف کے ساتھ، دستور کے دفعات کے ساتھ، دستور میں دئے گئے حقوق کے عین مطابق سامنے رکھنے والی آواز، ایک ایسی آواز جسے اول تو باقاعدگی کے ساتھ نظرانداز کیا جاتارہا اب بہار کے الیکشن کے نے اس کو سچ ثابت کردکھایا ہے-
چلئے پہلے بہار سے ہی بات کرتے ہیں، بہار میں سیمانچل ایک ایسا علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد آبادی بستی چلی آئی ہے -یہ ایک انتہائی زرخیز علاقہ ہے بہارکا سب سے زیادہ زرخیز علاقہ، چھوٹی بڑی ندیاں بہتی ہیں اس علاقہ میں پانچ اضلاع آتے ہیں کرشن گنج، پورنیا وغیرہ، یہ ندیا نیپال سے ابھرتی ہیں -اورسکم سے بھی جہاں سے یہ گذرتی ہیں مسلسل اپنے آس پاس کے تمام علاقہ کو سرسبز وشاداب بناتی چلی جاتی ہیں اورآگے چل کر دریائے گنگا میں اپنا وجود کھودیتی ہیں -لیکن ہرسال آنے والے سیلابوں کی لہر اس علاقے کی شادابی کو بھی اکثراپنے ساتھ بہالے جاتی ہے- کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اورکسان غریب ہی رہ جاتے ہیں -سیمانچل کے لوگوں نے آزادی کے بعد کانگریس کا ساتھ دیا لیکن جب کانگریس نے یہاں کی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا تو پھر لالو پرساد کے ساتھ گئے یہ پارٹی نے بھی اس علاقہ کو نظر انداز کرتی رہی -اب نتیش کی پندرہ سالہ حکومت بھی اس کی ترقی کے لئے کچھ کرنے سے دامن بچاتی رہی- اگر اور کچھ نہیں صرف سیلاب کی روک تھام کے لئے کچھ سرکاری انتظامات ہوجاتے تو سیمانچل ملک کا دوسرا پنجاب ہوتا نہ صرف بہار بلکہ ملک بھرکو بہترین چاول، گیہوں وغیرہ سپلائی کرنے والا گہوارہ ہوتا- آج بھی یہاں کے لوگ انتہائی پسماندہ ہیں -غریب ہیں، تکلیف میں ہیں، قدرت کی مہربانیوں کے باوجود سیاست دانوں کی طوطے کی طرح آنکھ پھیرلینے والی عادت کی وجہ سے یہ علاقہ بچھڑا ہواہوتا چلا آتا رہا ہے -انہی حالات کی وجہ سے بہار، یوپی، بنگال وغیرہ سے کانگریس پارٹی کا صفایا ہوتا رہا -یہاں اب لوگوں نے اسے حاشیہ پر رکھ دیا ہے -سیمانچل کے لوگوں نے ملک کو نئی راہ دکھلادی-
نام نہاد سکیولر پارٹیاں:
شمالی ہند سے کانگریس کا صفایا کیا ہونے لگا بھارتیہ جنتاپارٹی سراٹھانے لگی- سکیولرزم کے نام پر وقت حاصل کرنے والی نام نہاد سکیولرپارٹیاں مسلمانوں کے مسائل کو نظر انداز رہیں ان پارٹیوں سے منتخب ہونے والے مسلم لیڈر بھی، جب بھی براوقت آتا مسلمانوں سے نظریں چرالیتے اور ہاتھ باندھے اپنے آقاؤں کے ساتھ ہوجاتے -ابھی حال میں شمالی ہند میں ہونے والے بے شمار واقعات ایسے رہے جن کے لئے کوئی حق وانصاف کی مانگ کرنے والا نہیں رہا- یوپی میں گائے کے نام پر بے شمار مسلمان بے دردی سے پٹتے رہے، مرتے رہے، جیلوں میں سڑتے رہے، دہلی میں انتہائی ہونہار طلباء اورمسلم لیڈر شپ کے لئے تیار ہوتے طلبا کو گرفتارکرکے جیلوں میں سڑایا جاتا رہا -ین سی آر کے نام پر امن وامان کے ساتھ احتجاج کرنے والوں کو چن چن کر گرفتارکیا جاتارہا، فسادات کرواکے گھروں کو لوٹا گیا جلایا گیا کئی لوگ مارے گئے، تبلیغیوں کے نام پر کووڈ-19 کا سہارا لے کر ملک بھر میں نفرتوں کی آگ بھڑکائی گئی لیکن مسلمانوں کے ووٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں میں چین کی نیند سونے والے، اقتدار کے مزے لوٹنے والے کسی بھی پارٹی نے نام نہادسکیولر پارٹی نے، یا مسلمان لیڈروں نے بھی ان معصوموں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی چپ چاپ سادھے رہے جیسے سانپ سونگھ گیا ہو-
ایک نئی آواز نئے حوصلے والی:
یہی وہ حالات ہیں جن کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا گیا ہے ان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حیدرآباد سے ایک آواز بلند ہوئی یہ بلند ہوتے ہوئے سارے ملک میں پھیل گئی -پارلیمان ہوکہ کوئی اورسیاسی ایوان مسلمانوں کے حقوق کے لئے لڑنے والی ایک ہی شخصیت رہ گئی -انہی حالات کے پیش نظر ملک میں پہلی بار ایک علاقہ کے لوگوں نے حیدرآباد سے بلند ہونے والے ان کے حقوق کے لئے بلند ہونے والی آواز پر لبیک کہا اوردل کھول کر ووٹ دینے اس طرح حیدرآباد سے باہر دوسری ریاست میں پہلی مرتبہ پانچ مسلم ممبر بہار اسمبلی کے لئے چن لئے گئے -ریاست کیرلا کے باہر کسی بھی ریاست میں آزادی کے بعد کم از کم ایک ریاست کے مسلمانوں نے نام نہاد سکیولر پارٹیوں کو ٹھینگا بتایا وہ پارٹیاں جوکہ ان کے ووٹوں کے سہارے جیت کے گیت گاتی رہیں لیکن ان ووٹ دینے والوں کے کسی بھی دستوری مفادات کو نظرانداز کرتی رہیں ان کی ترقی کے لئے کچھ بھی کرنے سے پیچھے ہٹتی رہیں -اس خیال سے کہ کہیں ان پر مسلم نوازی کا ٹھپہ نہ لگ جائے اور فرقہ پرستی کی سل نہ لگ جائے-
دستوری حقوق کے لئے لڑنے والی:
یہ تو ایک چھوٹی سی جیت ہے ہندوستان جیسے بہت بڑے ملک سے ایک ایسے ملک سے جوکہ ابتداء سے ہی یعنی آزادی کی ابتداء سے ہی ذات پات، مذہب اورفرقہ پرستی کے بے شمار تکڑوں پر بنٹا ہوا ہے ایسے ملک میں اس چھوٹی سی صرف پانچ ممبران اسمبلی کی جیت نے جیسے ایک بھونچال سا برپا کردیا ہے، تمام پارٹیوں میں عموماً اور سکیولر کہلانے والی پارٹیوں کی نیند حرام ہوچلی ہے کسی نے اس شخصیت کو نئے دور کا جناح قرار دیا -کسی نے غدار تک کہہ ڈالا، کسی نے فرقہ پرست پارٹیوں کا آلہ کار قرار دیا -کسی نے کچھ کسی نے کچھ جتنی باتیں اب ہورہی ہیں ایسی کبھی نہ ہوئی تھیں -
انصاف کے لئے لڑنے والی شخصیت:
ایک بات طے ہے حیدرآباد سے ابھرنے والے اسدالدین اویسی نے ملک میں عموماً اورشمالی ہندوستان میں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو اپنی سیاست بازی کا بنیادی نقطہ بنایا اوراسی پر اپنی عمارت کی تعمیر شروع کردی ہے - بہار سے چنے والے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی پارٹی سے ابھرنے والے ان پانچ ممبران اسملی کی وجہ سے شمالی ہند کی تاریخ میں شاید ایک نیا صفحہ لکھا جانے والا ہے -یوپی، بنگال اورآسام کے جو انتخابات اگلے سال ہونے والے ہیں ان پر اس کا اثر ضرور ہوگا- آزادی کے بعد ملک میں کئی لیڈروں نے مسلمانوں کی الگ سیاسی پارٹی بنائی مگر ناکام رہے - سوائے کیرلا کی مسلم لیگ کے -اب اسدالدین اویسی جن حالات کو اپنی شعلہ بیانی سے اپنے حق میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کرنے کی ابتداء کی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آگے چل کر ملک کی سیاسی صورتحال پر کیا کیا اثرات ہوں گے -یہ بھی سچ ہے کہ تقریباً سبھی سکیولر کہلانے والی پارٹیاں مسلمانوں کے حق کے لئے لڑنے میں ناکام رہی ہیں - شاید تاریخ کا یہ ایک سنہرا موقع ہے -اسدالدین اویسی کے لئے -اب تک انہوں نے اس کارڈ کو کامیابی سے کھیلا ہے، دیکھنا ہے آگے کیا ہوگا -یہ بات طے ہے اب انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا -ملک کے سیاسی سمندرمیں انہوں نے ہلچل مچادی ہے-
----


